ہم کبھی عشق کو وحشت نہیں بننے دیتے
ہم کبھی عشق کو وحشت نہیں بننے دیتے
دل کی تہذیب کو تہمت نہیں بننے دیتے
لب ہی لب ہے تُو کبھی اور کبھی چشم ہی چشم
نقش تیرے ، تری صورت نہیں بننے دیتے
یہ ستارے جو چمکتے ہیں پسِ ابرِ سیہ
تیرے غم کو مری عادت نہیں بننے دیتے
تُو کبھی رات، کبھی دن، کبھی ظلمت، کبھی نور
تیرے جلوے تجھے وحدت نہیں بننے دیتے
اُن کی جنّت بھی کوئی دشتِ بلا ہی ہوگی
زندہ رہنے کو جو لذّت نہیں بننے دیتے
ہاں مسّرت تو ہے برحق، مگر افکارِ حیات
کوئی پیرایۂ راحت نہیں بننے دیتے
فکرِ فن کے لئے لازم مگر اچھے شاعر
اپنے فن کو کبھی حکمت نہیں بننے دیتے
وہ محبّت کا تعلق ہو کہ نفرت کا ندیمؔ
رابطے، زیست کو خلوت نہیں بننے دیتے
احمد ندیمؔ قاسمی
No comments:
Post a Comment