ہر آشنا میں کہاں خوئے محرمانہ وہ
ہر آشنا میں کہاں خوئے محرمانہ وہ
کہ بے وفا تھا مگر دوست تھا پرانا وہ
کہاں سے لائیں اب آنکھیں اسے کہ رکھتا تھا
عداوتوں میں بھی انداز مخلصانہ وہ
جو ابر تھا تو اسے ٹوٹ کر برسنا تھا
یہ کیا کہ آگ لگا کر ہوا روانہ وہ
پکارتے ہیں مہ و سال منزلوں کی طرح
لگا ہے توسنِ ہستی کو تازیانہ وہ
ہمیں بھی غم طلبی کا نہیں رہا یارا
ترے بھی رنگ نہیں گردشِ زمانہ وہ
اب اپنی خواہشیں کیا کیا اسے رلاتی ہیں
یہ بات ہم نے کہی تھی مگر نہ مانا وہ
یہی کہیں گے کہ بس صورت آشنائی تھی
جو عہد ٹوٹ گیا یاد کیا دلانا وہ
اس ایک شکل میں کیا کیا نہ صورتیں دیکھیں
نگار تھا نظر آیا نگار خانہ وہ
فؔراز خواب سی غفلت دکھائی دیتی ہے
جو لوگ جانِ جہاں تھے ہوئے فسانہ وہ
احمد فؔراز
No comments:
Post a Comment