2016-03-17

Har aashna mein kahan khoo e mehrmana woh

ہر آشنا میں کہاں خوئے محرمانہ وہ

ہر آشنا میں کہاں خوئے محرمانہ وہ
کہ بے وفا تھا مگر دوست تھا پرانا وہ
کہاں سے لائیں اب آنکھیں اسے کہ رکھتا تھا
عداوتوں میں بھی انداز مخلصانہ وہ
جو ابر تھا تو اسے ٹوٹ کر برسنا تھا 
یہ کیا کہ آگ لگا کر ہوا روانہ وہ
پکارتے ہیں مہ و سال منزلوں کی طرح
لگا ہے توسنِ ہستی کو تازیانہ وہ
ہمیں بھی  غم طلبی کا  نہیں رہا یارا
ترے بھی رنگ نہیں گردشِ زمانہ وہ
اب اپنی خواہشیں کیا کیا اسے رلاتی ہیں
یہ بات ہم نے کہی تھی مگر نہ مانا وہ
یہی کہیں گے کہ بس صورت آشنائی تھی
جو عہد ٹوٹ گیا یاد کیا دلانا وہ
اس ایک شکل میں کیا کیا نہ صورتیں دیکھیں
نگار تھا نظر آیا نگار خانہ وہ
فؔراز خواب سی غفلت دکھائی دیتی ہے
جو لوگ جانِ جہاں تھے ہوئے فسانہ وہ
             احمد فؔراز

No comments:

Post a Comment