2016-03-06

Bastiyan dhond rahi hain unhain viranon mein

بستیاں ڈھونڈ رہی ہیں اُنہیں ویرانوں میں

بستیاں ڈھونڈ رہی ہیں اُنہیں ویرانوں میں
وحشتیں بڑھ گئیں حد سے ترے دیوانوں میں
نگاہِ ناز نہ دیوانوں نہ فرزانوں میں
جانکار ایک وہی ہے مگر انجانوں میں
بزمِ مے بےخود و بےتاب نہ کیوں ہو ساقی
موجِ بادہ ہے کہ درد اُٹھا ہے پیمانوں میں
میں تو میں چونک اُٹھا ہے یہ فضائے خاموش
یہ صدا کب کی سنی آتی ہے پھر کانوں میں
وسعتیں بھی ہیں  نہاں تنگئ دل میں غافل
جی بہل جاتے ہیں اکثر  انہیں میدانوں میں
جان ایمانِ جنوں سلسلہ جنبانِ جنوں
کچھ کشش ہائے نہاں جذب ہیں ویرانوں میں
خندۂ صبحِ ازل ، تیرگئ شامِ ابد
دونوں عالم ہیں چھلکتے ہوئے پیمانوں میں
دیکھ جب عالمِ ہُو کو تو نیا عالم  ہے
بستیاں بھی نطر آنے لگیں ویرانوں میں
جس جگہ بیٹھ گئے آگ لگا کر اُٹھے
گرمیاں ہیں کچھ ابھی سوختہ سامانوں میں
وحشتیں بھی نطر آتی ہیں سرِ پردۂ ناز
دامنوں میں ہے یہ عالم نہ گریبانوں میں
ایک رنگینئ ظاہر ہے گلستاں میں اگر
ایک  شبانئ پنہاں ہے بیابانوں میں
جوہرِ غنچہ و گل میں ہے اک اندازِ جنوں
کچھ بیاباں نظر آتے ہیں گریبانوں میں
اب وہ رنگِ چمن  و خندۂ گل  بھی نہ رہے
اب وہ آثارِ  جنوں بھی نہیں دیوانوں میں
اب وہ ساقی کی بھی آنکھیں نہ رہیں رندوں میں
اب وہ  ساغر بھی چھلکتے نہیں مے خانوں میں
اب وہ اک سوز ِ نہانی بھی دلوں میں نہ رہا
اب وہ  جلوے بھی نہیں عشق کے کاشانوں میں
اب نہ وہ  رات جب اُمیدیں بھی کچھ تھیں تجھ سے
اب نہ وہ بات غمِ ہجر کے افسانوں میں
اب تیرے کام ہے بس اہلِ وفا کا پانا
اب تیرا نام ہے بس عشق کے غم خانوں میں
تابکہ وعدۂ موہوم  کی تفصیل فراقؔ
شبِ فراق کہیں کٹتی ہے ان افسانوں میں
                  فراؔق  گورکھپوری

No comments:

Post a Comment