ستم گری کا ہر انداز محرمانہ لگا
ستم گری کا ہر انداز محرمانہ لگا
میں کیا کروں مرا دشمن مجھے بُرا نہ لگا
ہر اک کو زعم تھا کس کس کو ناخدا کہتے
بھلا ہوا کہ سفینہ کنارے جا نہ لگا
مرےسخن کا قرینہ ڈبو گیا مجھ کو
کہ جس کو حال سُنایا اُسے فسانہ لگا
برونِ در نہ کوئی روشنی نہ سایہ تھا
سبھی فسانہ مجھے اندرونِ خانہ لگا
میں تھک گیا تھا بہت پے بہ پے اُڑانوں سے
جبھی تو دام بھی اس بار آشیانہ لگا
اس عہدِ ظلم میں مَیں بھی شریک ہوں جیسے
مرا سکوت مجھے سخت مجرمانہ لگا
وہ لاکھ زود فراموش ہو فرازؔ مگر
اسے بھی مجھ کو بھلانے میں اک زمانہ لگا
احمد فرازؔ
No comments:
Post a Comment