نجانے ظرف تھا کم یا انا زیادہ تھی
نجانے ظرف تھا کم یا انا زیارہ تھی
کلاہ سر سے ، تو قد سے قبا زیادہ تھی
رسیدگی تھی تو پھر ختم تھا گریز اس پر
سپردگی تھی تو بے انتہا زیادہ تھی
غرور اس کا بھی کچھ تھا جدائیوں کا سبب
کچھ اپنے سر میں بھی شائد ہوا زیادہ تھی
وفا کی بات الگ ، پر جسے جسے چاہا
کسی میں حسن ، کسی میں ادا زیادہ تھی
فرؔاز اس سے وفا مانگتا تھا جاں کے عوض
جو سچ کہیں تو یہ قیمت ذرا زیادہ تھی
احمد فؔراز
No comments:
Post a Comment