کیا کر گیا اک جلوۂ مستانہ کسی کا
رُکتا نہیں زنجیر سے دیوانہ کسی کا
کہتا ہے سرِ حشر یہ دیوانہ کسی کا
جنت سے الگ چاہئے ویرانہ کسی کا
آپس میں اُلجھتے ہیں عبث شیخ و برہمن
کعبہ نہ کسی کا ہے نہ بت خانہ کسی کا
جس کی نگہِ سادہ کے ہم مارے ہوئے ہیں
وہ شوخ یگانہ ہے نہ بیگانہ کسی کا
بیساختہ آج ان کے بھی آنسو نکل آئے
دیکھا نہ گیا حال فقیرانہ کسی کا
ہر دل میں غمِ عشق ہے اقرار در اقرار
ہر لب پہ ہے افسانہ در افسانہ کسی کا
ہوں عام نہ کر کیفِ غمِ عشق کو اے دل!
کم بخت ! یہ میخانہ ہے میخانہ کسی کا
اُس کو بھی جگرؔ دیکھ لیا خاک میں ملتے
وہ اشک جو تھا گوہر ِ یک دانہ کسی کا
جگر ؔ مرادآبادی
No comments:
Post a Comment