عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے
محبتوں میں دلوں کو عجب ہے دھڑکا سا
کہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے
ملے ہیں یوں تو بہت آؤ اب ملیں یوں بھی
کہ روح گرمئ انفاس سے پگھل جائے
میں وہ چراغ سرِ
راہگزارِ دنیا ہوں
جو اپنی ذات کی تنہائیو میں جل جائے
زہے وہ دل جو تمنائے تازہ تر میں رہے
خوشا وہ عمر جو خوابوں میں ہی بہل جائے
ہر اک لحظہ یہی آرزو یہی حسرت
جو آگ دل میں ہے وہ شعر میں بھی ڈھل جائے
عبید اللہ علیمؔ
No comments:
Post a Comment