اے خدا جو بھی مجھے پندِ
شکیبائی دے
اے
خدا جو بھی مجھے پندِ شکیبائی دے
اُس
کی آنکھوں کو مرے زخم کی گہرائی دے
تیرے
لوگوں سے گِلہ ہے میرے آئینوں کو
ان
کو پتھر نہیں دیتا ہے تو بینائی
دے
جس
کے ایما پہ کیا ترکِ تعلق سب سے
اب
وہی شخص مجھے طعنۂ تنہائی دے
یہ
دہن زخم کی صورت ہے مرے چہرے پر
یا
مرے زخم کو بھر یا مجھے گویائی دے
اتنا
بے صرفہ نہ جانے مرے گھر کا جلنا
چشمِ
گریاں نہ سہی چشمِ تماشائی دے
جن
کو پیراہنِ توقیر و شرف بخشا ہے
وہ
برہنہ ہیں انھیں خلعتِ رسوائی دے
کیا
خبر تجھ کو کہ کس وضع کا بسمل ہے فرازؔ
وہ
تو قاتل کو بھی الزامِ مسیحائی دے
احمد فرازؔؔ
No comments:
Post a Comment