وفا کی راہ پر کوئی دوبارہ جا نہیں سکتا
وفا کی راہ پر کوئی دوبارہ جا نہیں سکتا
گزرتا پل کبھی پھر سے گزارا جا نہیں سکتا
بہت نزدیک ہو کر بھی وہ اتنا دور ہے مجھ سے
اشارہ ہو نہیں سکتا پکارا جا نہیں سکتا
یہ مدو جزرِ دنیا کھیل ہے سانپ اور سیڑھی کا
یہاں سے آگے پیچھے استعارہ جا نہیں سکتا
اسے میں کس طرح پاؤں وہ مجھ تک کس طرح پہنچے
کہ اپنی راہ سے ہٹ کر ستارہ جا نہیں سکتا
جہاں تک خواہش اس آدمِ خاکی کی جاتی ہے
وہاں تک زندگی کا گوشوارہ جا نہیں سکتا
کہیں پہ رُک بھی سکتا ہے ہمارے عشق کا سودہ
کہ جاناں! حد سے آگے تو خسارہ جا نہیں سکتا
عبید اللہ علیم
No comments:
Post a Comment