2016-04-10

Woh chandni ka badan khushbuon ka saya hai

وہ چاندنی کا بدن خوشبوؤں کا سایہ ہے

وہ چاندنی کا بدن خوشبوؤں کا سایہ ہے
بہت عزیز ہمیں ہے مگر پرایا ہے
اُتر بھی آؤ کبھی آسماں کے زینے سے
تمہیں خدا نے ہمارے لئے بنایا ہے
کہاں سے آئی یہ خوشبو، یہ گھر کی خوشبو ہے
اس اجنبی  کے اندھیرے میں کون آیا ہے
مہک رہی ہے زمیں چاندنی کے پھولوں سے
خدا کسی کی محبت پہ مسکرایا ہے
اُسے کسی کی محبت کا اعتبار نہیں
اسے زمانے نے شاید بہت ستایا ہے
تمام عمر مرا دم اسی دُھوئیں میں گھٹا
وہ اک چراغ تھا میں نے اسے بجھایا ہے
                            بشیرؔ بدر

No comments:

Post a Comment