2016-02-08

Tere khayal se lo de uthi hai

ترے خیال سے لَو دے اُٹھی ہے تنہائی
ترے خیال سے لَو دے اُٹھی ہے تنہائی
شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی
تو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی
اُنھیں بھی دیکھ جنھیں راستے میں نیند آئی
پکار اے جرسِ کاروانِ صبحِ طرب
بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں تیرے سودائی
ٹھہر  گئے ہیں سرِراہ خاک اُڑانے کو
مسافروں کو نہ چھیڑ اے ہوائے صحرائی
رہِ حیات میں کچھ مرحلے تو دیکھ لیے
یہ  اور بات تری آرزو نہ راس آئی
یہ سانحہ بھی محبت میں بارہ  گزرا
کہ اُس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھی آئی
دلِ افسردہ میں پھر دھڑکنوں کا شور اُٹھا
یہ بیٹھے بیٹھے مجھے کن دنوں کی یاد آئی
میں سوتے سوتے کئی بار چونک چونک اُٹھا
تمام رات ترے پہلوؤں سے آنچ آئی
جہاں بھی تھا کوئی فتنہ تڑپ کے جاگ اُٹھا
تمام ہوش تھی مستی میں تیری انگڑائی
کُھلی جو آنکھ تو کچھ اور ہی سماں دیکھا
وہ لوگ تھے نہ وہ جلسے نہ شہرِ رعنائی
وہ تابِ درد وہ سودائے انتظار کہاں
اُنھی کے ساتھ گئی طاقتِ شکیبائی
پھر اُس کی یاد میں دل بےقرار ہے ناصرؔ
بچھڑ کے جس سے ہوئی شہر شہر رسوائی
                  ناصر کاظمی


No comments:

Post a Comment