2016-04-02

﷽Barson ke baad dekha ek shakhs dilruba sa

برسوں کے بعد دیکھا اک شخص دِلربا  سا

برسوں کے بعد دیکھا اک شخص دِلربا سا
اب ذہن میں نہیں ہے پر نام تھا بھلا سا
ابرُو کھچے کھچے سے آنکھیں جھکی جھکی سی
باتیں رُکی رُکی سی  لہجہ تھکا تھکا سا
الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر میں
بن بائے جنگلوں میں جس طرح راستا سا
خوابوں میں خواب اسکے یادوں میں یاد اسکی
نیندوں میں گھُل گیا ہو جیسے کہ رتجگا سا
پہلے بھی لوگ آئے کتنے ہی زندگی میں
وہ ہر طرح سے لیکن اوروں  سے تھا جدا سا
اگلی محبتوں نے وہ نامرادیاں دیں !
تازہ رفاقتوں سے دل تھا ڈرا ڈرا سا
کچھ یہ کہ مدتوں سے ہم بھی نہیں تھے روئے
کچھ زہر میں بجھا تھا احباب کا دلاسا
پھر یوں ہوا کہ ساون آنکھوں میں آبسے تھے
پھر یوں ہوا کہ جیسے دل بھی تھا آبلہ سا
اب سچ کہیں تو یارو ہم کو خبر نہیں تھی
بن جائے گا قیامت اک واقعہ ذرا سا
تیور تھے بے رُخی کے انداز دوستی کے
وہ اجنبی تھا لیکن لگتا تھا آشنا سا
ہم دشت تھے کہ دریا ہم زہر تھے کہ امرت
ناحق تھا زعم ہم کو جب وہ نہیں تھا پیاسا
ہم نے بھی اس کو دیکھا کل شام اتفاقاً
اپنا بھی حال ہے اب لوگو فرؔاز کا سا
                      احمد فؔراز

No comments:

Post a Comment