2016-02-13

Woh to khushbu hai

وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا

وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا
ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اُتر جائے گا
وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے
ایک جھونکا ہے جو آئے گا  گزر جائے گا
وہ جب آئے گا تو پھر  اُس کی رفاقت کیلئے
موسمِ گل میرے آنگن میں ٹھہر جائے گا
آخرش وہ بھی  کہیں ریت پہ بیٹھی ہوگی
تیرا یہ پیار بھی دریا ہے اُتر جائے گا
  پروین شاؔکر

No comments:

Post a Comment