طبع مضطر سنبھل نہ جائے کہیں
طبع مضطر سنبھل نہ جائے کہیں
دل میں یہ درد پل نہ جائے کہیں
آج دنیا میں ہے بڑی ہل چل
خوابِ ہستی کچل نہ جائے کہیں
غنچے غنچےکا پیرہن دمِ صبح
سو جگہ سے نکل نہ جائے کہیں
آج آثار دردِ دل ہیں کچھ اور
رات فرقت کی ڈھل نہ جائے کہیں
گھر کو گھر کا چراغ پھونک نہ دے
گل سے گلزار جل نہ جائے کہیں
خوب نبھتی ہے دل میں اور مجھ میں
ڈر ہے آپس میں چل نہ جائے کہیں
تیز گردش سے ڈر ہے دورِ حیات
اپنے محور سے ٹل نہ جائے کہیں
کشتۂ ہجرِ زندگی پہ فراؔق
موت بھی ہاتھ مل نہ جائے کہیں
فراق گورکھپوری
No comments:
Post a Comment