2016-02-17

Tabay muztar sambhal na jay kahin

طبع مضطر سنبھل نہ جائے کہیں

طبع مضطر سنبھل نہ جائے کہیں
دل میں یہ درد پل نہ جائے کہیں
آج دنیا میں ہے بڑی ہل چل
خوابِ ہستی کچل نہ جائے کہیں
غنچے غنچےکا پیرہن دمِ صبح
سو جگہ سے نکل نہ جائے کہیں
آج آثار دردِ دل ہیں کچھ اور
رات فرقت کی ڈھل نہ جائے کہیں
گھر کو گھر کا چراغ پھونک نہ دے
گل سے گلزار جل نہ جائے کہیں
خوب نبھتی ہے دل میں اور مجھ میں
ڈر ہے آپس میں چل نہ جائے کہیں
تیز گردش سے ڈر ہے دورِ حیات
اپنے محور سے ٹل نہ جائے کہیں
کشتۂ   ہجرِ   زندگی   پہ   فراؔق
موت بھی ہاتھ مل نہ جائے کہیں
         فراق گورکھپوری

No comments:

Post a Comment