2016-02-19

Jo bhi daroone dil hai wo bahir na ae ga

جو بھی درونِ دل ہے وہ باہر نہ آئے گا

جو بھی درونِ دل ہے وہ باہر نہ آئے گا
اب آگہی کا زہر زباں ہر نہ آئے گا
اب کے بچھڑ کے اس کو ندامت تھی اس قدر
جی چاہتا بھی ہو تو پلٹ کر نہ آئے گا
یوں پھر رہا ہے کانچ کا پیکر لیے ہوئے
غافل کو یہ گماں ہے کہ پتھر نہ آئے گا
پھر بو رہا ہوں آج انہیں ساحلوں پہ پھول
پھر جیسے موج میں یہ سمندر نہ آئے گا
میں جاں بلب ہوں  ترکِ تعق کے زہر سے
وہ مطمئن کہ حرف تو اس پر نہ آئے گا
                   احمد فرؔاز

No comments:

Post a Comment