2016-02-18

Chalne ka hosla nahi rukna mahal kar diya

چلنے کا حوصلہ نہیں، رُکنا محال کردیا

چلنے کا حوصلہ نہیں، رُکنا محال کردیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو ندھال کردیا
ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی
اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کردیا
اے میری گل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی
اہلِ کتاب نے مگر کیا تیرا حال کردیا
اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامنِ یار منتظر
بانؤ شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کر دیا
ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو  ایک بات کی اس نے کمال کردیا
میرے لبوں پہ مہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو
شہر کے شہر کو میرا واقفِ حال کردیا
چہرہ و نام ایک ساتھ آج  نہ یاد آ سکے
وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کردیا
مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا
منصبِ دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کردیا
                  پروین شاکؔر

No comments:

Post a Comment