2016-04-05

Ye jo ek umer ki tanhai hai

یہ جو اک عُمر کی تنہائی ہے

یہ جو  اک عُمر کی تنہائی ہے
 میرا  معیارِ  توانائی  ہے
ہر طرف ایک ہی صورت کا ہجوم
یہ عجب انجمن  آرائی ہے
وہی اک چاند ، وہی ایک زمیں
تیری میری یہی یکجائی  ہے
شب کو جلتا ہے وہی مثلِ چراغ
دن کو جو لالۂ صحرائی ہے
عشق پتھر سے نمی مانگتا ہے
عقل کہتی ہے ، یہ دانائی ہے
بول سکتے ہیں ، مگر سب چُپ ہیں
یہ بھی اک طرح کی گویائی ہے
نوکِ خنجر سے سلے زخم ندؔیم
یہ نیا   طرزِ مسیحائی   ہے

    احمد ندؔیم قاسمی

No comments:

Post a Comment