2016-04-16

Tere kehne se mein azbas ke bahir ho nahin sakta

ترے کہنے سے میں ازبس کہ باہر ہو نہیں سکتا

ترے کہنے سے میں ازبس کہ باہر ہو نہیں سکتا
ارادہ صبر کا کرتا تو ہوں ، پر ،  ہو نہیں سکتا
کہا جب میں، ترا بوسہ تو جیسے قند ہے پیارے
لگا تب کہنے ،   پر ، قندِ مکرر ہو نہیں سکتا
دلِ آوارہ اُلجھے یاں کسو کی زلف میں یا رب!
علاج  آوارگی کا  اس سے بہتر ہو نہیں سکتا
مری بے صبریوں کی بات سن کر سب سے کہتا ہے
تحمّل مجھ سے بھی تو حال سن کر ہو نہیں سکتا
کرے کیا فائدہ ناچیز کو تقلید  اچھوں کی
کہ جم جانے سے کچھ اولا تو گوہر ہو نہیں سکتا
نہیں چلتا ہے کچھ اپنا تو تیرے عشق کے آگے
ہمارے دل پہ کوئی اور  تو ور ہو نہیں سکتا
کہا میں ، یوں تو مل جاتے ہو آگر بعد مدت کے
اگر چاہو تو یہ کیا تم سے اکثر ہو نہیں سکتا
لگا کہنے ، سمجھ اس بات کو ٹک تو کہ جلد اتنا
ترے گھر آنے جانے میں ، مرا گھر ہو نہیں سکتا
بچوں کس طرح میں اے دردؔ اس کے تیغِ ابرو سے
کہ جس کے سامنے کوئی بھی جاں بر ہو نہیں سکتا
                          خواجہ میر دردؔ دہلوی

No comments:

Post a Comment