2016-04-12

Main ne aghaz se anjam e safar jana hai

میں نے آغاز سے انجامِ سفر جانا ہے

میں نے آغاز سے انجامِ سفر جانا ہے
سب کو دو چار قدم چل کے ٹھہر جانا ہے
غم وہ صحرائے تمنّا کہ بگولے کی طرح
جس کو منزل نہ ملی اس کو بکھر جانا ہے
تیری نظروں میں مرے درد کی قیمت کیا تھی
میرے دامن نے تو آنسو کو گہر جانا ہے
اب کے بچھڑے تو نہ پہچان سکیں گے چہرے
میری چاہت ترے پندار کو  مر جانا ہے
جانے والے کو نہ روکو کہ بھرم رہ جائے
تم پکارو بھی تو کب اس کو ٹھہر جانا ہے
تیز سورج میں چلے آتے ہیں میری جانب
دوستوں نے مجھے  صحرا کا شجر جانا ہے
زندگی کو بھی ترے در سے بھکاری کی طرح
ایک پل کے لیے رُکنا ہے گزر جانا ہے
اپنی افسردہ مزاجی کا برا ہو کہ فراؔز
واقعہ کوئی بھی ہو آنکھ کو بھر جانا ہے
                        احمد فراؔز

No comments:

Post a Comment