2016-04-07

Hum tera hijar manane ke liye nikle hain

ہم تیرا ہجر منانے کے لیے نکلے ہیں

ہم تیرا ہجر منانے کے لیے نکلے ہیں
شہر میں آگ لگانے کے لیے نکلے ہیں
شہر کوچوں میں کرو حشر بپا آج کہ ہم
اس کے وعدے کو بھلانے کے لیے نکلے ہیں
ہم سے جو روٹھ گیا ہے وہ بہت ہے معصوم
ہم تو اوروں کو منانے کے لیے نکلے ہیں
شہر میں شور ہے ، وہ یوں کے گماں کے سفری
اپنے ہی آپ میں آنے کے لیے نکلے ہیں
وہ جو تھے شہرِ تحیّر ترے پُر فن معمار
وہی پُر فن تجھے ڈھانے کے لیے نکلے ہیں
رہگذر میں تری قالین بچھانے والے
خون کا فرش بچھانے کے لیے نکلے ہیں
ہمیں کرنا ہے خداوند کی امداد سو ہم
دیر و کعبہ کو لڑانے کے لیے نکلے ہیں
سرِ شب اک نئی تمثیل بپا ہونی ہے
اور ہم پردہ اُٹھانے کے لیے نکلے ہیں
ہمیں سیراب نئی نسل کو کرنا ہے سو ہم
خون میں اپنے نہانے کے لیے نکلے ہیں
ہم کہیں کے بھی نہیں پر یہ ہے روداد اپنی
ہم کہیں سے بھی نہ جانے کے لیے نکلے ہیں
                          جوؔن ایلیا

No comments:

Post a Comment