2016-04-11

Ghar se nikle agar hum behek jayen ge

گھر سے نکلے اگر ہم بہک جائیں گے

گھر سے نکلے اگر ہم بہک جائیں گے
وہ گلابی کٹورے چھلک جائیں گے
ہم نے الفاظ کو آئینہ کردیا
چھُپنے والے غزل میں چمک جائیں گے
دشمنی کا سفر اک قدم دو قدم
تم بھی تھک جاؤگے ہم بھی تھک جائیں گے
رفتہ رفتہ ہر اک زخم بھر جائے گا
سب نشانات پھولوں سے ڈھک جائیں گے
نام پانی پہ لکھنے سے کیا فائدہ
لکھتے لکھتے ترے ہاتھ تھک جائیں گے
یہ پرندے بھی کھیتوں کے مزدور ہیں
لوٹ کے اپنے گھر شام تک جائیں گے
دن میں پریوں کی کوئی کہانی نہ سُن
جنگلوں میں مسافر بھٹک جائیں گے
             بشیرؔبدر

No comments:

Post a Comment