2016-04-15

Faqeerana aay sada kar chale

فقیرانہ  آئے صدا کر چلے

فقیرانہ آئے صدا   کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
جو تجھ بن نہ کہتے تھے جینے کو ہم
سو اس عہد کو اب وفا کرچلے
شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی
کہ مقدور تک تو دوا  کر چلے
وہ کیا چیز ہے آہ جس کے لئے
ہر اک چیز سے دل اُٹھا کر چلے
کوئی نا امیدانہ  کرتے نگاہ
 سو تم ہم سے منہ بھی  چھپا کر چلے
بہت آرزو تھی گلی کی تری
سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے
دکھائی دیئے یوں کہ بےخود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کرچلے
جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی
حقِ بندگی ہم ادا کر چلے
پرستش کی ہے یاں کہ اے بت تجھے
نظر میں سبھوں کی خدا کرچلے
جھڑے پھول جس رنگِ گلبن سے یوں
چمن میں جہاں کے ہم آکر چلے
نہ دیکھا غمِ دوستاں شکر ہے
ہمیں داغ اپنا دکھا کرچلے
گئی عمر در بندِ فکرِ غزل
سو اس فن کو ایسا بُرا کرچلے
کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میرؔ
جہاں میں تم آئے تھے کیا کرچلے
            میر تقی میرؔ

No comments:

Post a Comment