2016-04-20

Dil kis ke tasawur mein jane raaton ko pareshan hota hai

دل کس کے تصور میں جانے راتوں کو پریشاں ہوتا ہے

دل کس کے تصور میں جانے راتوں کو پریشاں ہوتا ہے
یہ حسنِ طلب کی بات نہیں ہوتا ہے مری جاں ہوتا ہے
ہم تیری سکھائی منطق سے اپنے کو تو سمجھا لیتے ہیں
اک خار کھٹکتا رہتا ہے سینے میں جو پنہاں ہوتا ہے
پھر ان کی گلی میں پہنچے گا ، پھر سہو کا سجدہ کرلے گا
اس دل پہ بھروسہ کون کرے ہر روز مسلماں ہوتا ہے
وہ درد کہ اس نے چھین لیا ، وہ درد کہ اس کی بخشش تھا
تنہائی کی راتوں میں انشاؔ اب  بھی مرا مہماں ہوتا ہے
ابنِ انشاؔ

No comments:

Post a Comment