دروازہ جو کھولا تو نظر آئے کھڑے
وہ
دروازہ جو کھولا تو نظر آئے کھڑے وہ
حیرت ہے مجھے ، آج کدھر بھول پڑے وہ
بھولا نہیں دل ، ہجر کے لمحات کڑے وہ
راتیں تو بڑی تھیں ہی ، مگر دن بھی بڑے وہ
کیوں جان پہ بن آئی ہے بگڑا ہے اگر وہ
اس کی تو یہ عادت کہ ہواؤں سے لڑے وہ
الفاظ تھے اس کے کہ بہاروں کے پیامات
خوشبو سی برسنے لگی ، یوں پھول جھڑے وہ
ہر شخص مجھے ، تجھ سے جدا کرنے کا خواہاں
سن پائے اگر ایک تو دس جا کے جڑے وہ
بچّے کی طرح چاند کو چھونے کی تمنّا
دل کو کوئی شہ دے دے تو کیا نہ اڑے وہ
طوفاں ہے تو کیا غم ، مجھے آواز تو دیجے
کیا بھول گئے آپ مرے کچے گھڑےوہ
پروین شاکؔر
No comments:
Post a Comment