2016-04-14

Ashk e rawan ki nehar hai aur hum hain dosto

اشکِ رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو

اشکِ رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد
تنہائیوں کا  زہر ہے اور ہم ہیں دوستو
لائی ہے اب اُڑا کے گئے موسموں کی باس
برکھا کی رت کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو
دل کو  ہجومِ  نکہتِ  مہ سے لہو  کیے
راتوں کا پچھلا پہر ہے اور ہم ہیں دوستو
پھرتے ہیں مثلِ موجِ ہوا شہر شہر میں
آوارگی کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو
آنکھوں میں اُڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
                     منیؔر نیازی

No comments:

Post a Comment