2016-04-10

Abhi is taraf na nigaah kar main ghazal ki palken sanwaar loon

ابھی اس طرف نہ نگاہ کر میں غزل کی پلکیں سنوار لوں

ابھی اس طرف نہ نگاہ کر میں غزل کی پلکیں سنوار لوں
مرا لفظ لفظ ہو آئینہ تجھے آئینے میں اُتار  لوں
میں تمام دن کا تھکا ہوا تو تمام شب کا جگا ہوا
ذرا ٹھہر جا اسی موڑ پر تیرے ساتھ شام گزار لوں
اگر آسماں کی نمائشوں  میں مجھے بھی اذنِ قیام ہو
تو میں موتیوں کی دکان سے تری بالیاں ترے ہار لوں
کہیں اور بانٹ دے شہر میں کہیں اور بخش دےعزتیں
میرے پاس ہے مرا آئینہ میں کبھی نہ گرد و غبار لوں
کئی اجنبی تری راہ میں مرے پاس سے یوں گزر گئے
جنہیں دیکھ کر یہ تڑپ ہوئی ترا نام لے کے پکار لوں

بشیرؔبدر

No comments:

Post a Comment