2016-03-30

Dunya ka kuch bura bhi tamasha nahin raha

دنیا کا کچھ بُرا بھی تماشہ نہیں رہا

دنیا کا کچھ بُرا بھی تماشہ نہیں رہا
دل چاہتا تھا جس طرح ویسا نہیں رہا
تم سے ملے بھی ہم تو جُدائی کے موڑ پر
کشتی ہوئی نصیب تو دریا نہیں رہا
کہتے تھے ایک پل نہ جئیں گے تیرے بغیر
ہم دونوں رہ گئے ہیں وہ وعدہ نہیں رہا
کاٹے ہیں اِس طرح  سے تیرے بعد روز و شب
میں سانس لے رہا تھا پر زندہ نہیں رہا
آنکھیں بھی دیکھ دیکھ کے خواب آگئی ہیں تنگ
دل میں بھی اب وہ شوق وہ لپکا نہیں رہا
کیسے ملائیں آنکھ کسی آئینے سے ہم
اؔمجد ہمارے پاس تو چہرہ نہیں رہا
              امجد اسلام اؔمجد

Kehne ko mera us se koi wasta nahin

کہنے کو میرا اس سے کوئی واسطہ نہیں

کہنے کو میرا اس سے کوئی واسطہ نہیں
اؔمجد مگر وہ شخص مجھے بھولتا نہیں
ڈرتا ہوں آنکھ کھولوں تو منظر بدل نہ جائے
میں جاگ تو رہا ہوں مگرجاگتا نہیں
آشفتگی سے اُس کی اُسے بے وفا نہ جان
عادت کی بات اور ہے دل کا بُرا نہیں
تنہا اُداس چاند کو سمجھو نہ بے خبر
ہر بات سن رہا ہے مگر بولتا نہیں
خاموش رتجگوں کا دھواں تھا چہار سو
نکلا کب آفتاب مجھے تو پتہ نہیں
اؔمجد وہ آنکھیں جھیل سی گہری تو ہیں مگر
اُن میں کوئی بھی عکس میرے نام کا نہیں
                     امجد اسلام امؔجد

Mujh se kafir ko tere ishq ne yun sharmaya

مجھ سے کافر کو تیرے عشق نے یوں شرمایا

مجھ سے کافر کو تیرے عشق نے یوں شرمایا
دل تجھے دیکھ کے دھڑکا تو خدا یاد آیا
میرے دل پہ تو ہے اب تک تیرے غم کا سایہ
لوگ کہتے ہیں نیا دور نئے دُکھ لایا
میرا معیارِ وفا ہی میری مجبوری ہے
رُخ بدل کر بھی تجھے اپنے مقابل پایا
چارہ گر آج ستاروں کی قسم کھا کے بتا
کس نے انساں کو تبسم کے لئے ترسایا
نذر کرتا رہا میں پھول سے جذبات اسے
جس نے پتھر کے کھلونوں سے مجھے بہلایا
لوگ ہنستے ہیں تو اس سوچ میں کھو جاتا ہوں
موجِ سیلاب نے پھر کس کا گھروندا ڈھایا
اس کے اندر کوئی فنکار چھپا بیٹھا ہے
جانتے بوجھتے جس شخص نے دھوکا کھایا
                   احمد ندیمؔ قاسمی

2016-03-28

Pathar ke jigar walo gham mein woh rawani hai

پتھر کے جگر والو غم میں وہ روانی ہے

پتھر کے جگر والو غم میں وہ روانی ہے
خود راہ بنا لے گا بہتا ہوا پانی ہے
پھولوں میں غزل رکھنا یہ رات کی رانی ہے
اس میں تری زلفوں کی بے ربط کہانی ہے
اک ذہنِ پریشان میں  وہ پھول سا چہرہ ہے
پتھر کی حفاظت میں شیشے کی جوانی ہے
کیوں چاندنی راتوں میں دریا پہ نہاتے ہو
سوئے ہوئے پانی میں کیا آگ لگانی ہے
اس حوصلۂ دل پر ہم نے بھی کفن پہنا
ہنس کر کوئی پوچھے گا کیا جان گنوانی ہے
رونے کا اثر دل پر رہ رہ کے بدلتا ہے
آنسو کبھی شیشہ ہے آنسو بھی پانی ہے
یہ شبنمی لہجہ ہے  آہستہ غزل پڑھنا
تتلی کی کہانی ہے پھولوں کی زبانی ہے
                      بؔشیر بدر

Sar pe saya sa dast e dua yad hai

سر پہ سایہ سا   دستِ دُعا یاد ہے

سر پہ سایہ سا  دست، دُعا یاد ہے
اپنے آنگن میں اک پیڑ تھا یاد ہے
جس میں اپنی پرندوں سے تشبیہ تھی
تم کو اسکول کی وہ دُعا یاد ہے
ایسا لگتا ہے ہر امتحاں کے لئے
زندگی کو ہمارا پتہ یاد ہے
میکدے میں اذاں سُن کے رویا بہت
اس شرابی کو دل سے خدا یاد ہے
میں پرانی حویلی کا پردہ مجھے
کچھ کہا یاد ہے کچھ سنا یاد ہے
            بؔشیر بدر

Doosron ko hamari sazain na de

دوسروں کو ہماری سزائیں نہ دے

دوسروں کو ہماری سزائیں نہ دے
چاندنی رات کو بددعائیں نہ دے
پھول سے عاشقی کا ہنر سیکھ لے
تتلیاں خود رکیں گی صدائیں نہ دے
سب گناہوں کا اقرار کرنے لگیں
اس قدر خوب صورت سزائیں نہ دے
میں درختوں کی صف کا بھکاری نہیں
بے وفا موسموں کی قبائیں نہ  دے
موتیوں کو چھپا  سیپیوں کی طرح
بے وفاؤں کو اپنی وفائیں نہ دے
میں بکھر جاؤں گا آنسوؤں کی طرح
اس قدر پیار سے بددعائیں نہ دے
                بشیؔر بدر

2016-03-27

Kisi kali ne bhi dekha na aankh bhar ke mujhe

کسی کلی نے  بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے

کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے
گزر گئی جرسِ گل اداس کرکے مجھے
میں سو رہا تھا کسی یاد کے شبستاں میں
جگا کے چھوڑ گئے قافلے سحر کے مجھے
میں رو رہا تھا مقدر کی سخت راہوں میں
اُڑا کے لے گئے جادو تری نظر کے مجھے
میں تیرے درد کی طغیانیوں میں ڈوب گیا
پکارتے رہے تارے اُبھر اُبھر کے مجھے
ترے فراق کی راتیں کبھی نہ بھولیں گی
مزے ملے انھیں راتوں میں عمر بھر کے مجھے
ذرا سی دیر ٹھہرنے دے اے غمِ دنیا
بُلا رہا ہے کوئی  بام سے اُتر کے مجھے
پھر آج آئی تھی اک موجۂ ہوائے طرب
سنا گئی ہے فسانے اِدھر اُدھر کے مجھے
                        ناؔصر کاظمی

Fikr e tameer e aashyan bhi hai

فکرِ تعمیرِ آشیاں بھی ہے

فکرِ تعمیرِ آشیاں بھی ہے
خوفِ بے مہرئ خزاں بھی ہے
خاک بھی اُڑ رہی ہے رستوں میں
آمدِ صبح کا سماں بھی ہے
رنگ بھی اُڑ رہا ہے پھولوں کا
غنچہ غنچہ شررفشاں بھی ہے
اوس بھی ہے کہیں کہیں لرزاں
بزمِ انجم دھواں دھواں بھی ہے
کچھ تو موسم بھی ہے خیال انگیز
کچھ طبیعت مری رواں بھی ہے
کچھ ترا حسن بھی ہے ہوش رُبا
کچھ مری شوخئ بیاں بھی ہے
ہر نفس شوق بھی ہے منزل کا
ہر قدم یادِ رفتگاں بھی ہے
وجہِ تسکیں بھی ہے خیال اُس کا
حد سے بڑھ جائے تو گراں بھی ہے
زندگی جس کے دم سے ہے ناؔصر
یاد اُس کی عذابِ جاں بھی ہے
                    ناؔصر کاظمی

Teri zulfon ke bikharne ka sabab hai koi

تیری زلفوں کے بکھرنے کا سبب ہے کوئی

تیری زلفوں کے بکھرنے کا سبب ہے کوئی
آنکھ کہتی ہے ترے دل میں طلب ہے کوئی
آنچ آتی ہے ترے جسم کی عریانی سے
پیرہن ہے کہ سلگتی ہوئی شب ہے کوئی
ہوش اُڑانے لگیں پھر چاند کی ٹھنڈی کرنیں
تیری بستی میں ہوں یا خوابِ طرب ہے کوئی
گیت بُنتی ہے ترے شہر کی  بھرپور ہوا
اجنبی میں ہی نہیں تو بھی عجب ہے کوئی
لیے جاتی ہیں کسی دھیان کی لہریں ناؔصر
دور تک سلسلۂ تاکِ طرب ہے کوئی
                     ناؔصر کاظمی


Dil dharakne ka sabab yar aaya

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
آج مشکل تھا سنبھلنا اے دوست
تو مصیبت میں عجب یاد آیا
دن گزارا تھا بڑی مشکل سے
پھر ترا وعدۂ شب یاد آیا
تیرا بھولا ہوا پیمانِ وفا
مر رہیں گے اگر اب یاد آیا
پھر کئی لوگ نظر سے گزرے
پھر کوئی شہرِ طرب یاد آیا
حالِ دل ہم بھی سناتے لیکن
جب وہ رخصت ہوا تب یاد  آیا
بیٹھ کر سایۂ گل میں ناؔصر
ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا
                  ناؔصر کاظمی

2016-03-26

Udaas aur zeyada kahin na hojain

اداس اور زیادہ کہیں نہ ہو جا ئیں

اداس اور زیادہ کہیں نہ ہو جا ئیں
فراؔز انجمنِ دوست سے چلو جائیں
نہ اجنبی، نہ مسافر، نہ شہر والے ہیں
کوئی پکارو کہ ہم بھی کسی کے ہوجائیں
جو صدمے ہم پہ گزرنے ہیں وہ تو گزریں گے
مگر یہ آپ کو غم کیوں ہے آپ تو جائیں
اُلجھتے ہیں ترے سودائیوں سے اہلِ خرد
یہ سادہ لوح بھی پاگل کہیں نہ ہوجائیں
زمانہ اپنی پریشانیوں میں کھویا ہے
چلو کہ منزلِ جاناں کو دوستو جائیں
شبِ فراق تو کٹتی نظر نہیں آتی
خیالِ یار میں آؤ فراؔز سوجائیں
              احمد فرازؔ

Inkar na iqrar bari dair se chup hain

انکار  نہ اقرار بڑی دیر سے چُپ ہیں

انکار نہ اقرار بڑی دیر سے چُپ ہیں
کیا بات ہے سرکار بڑی دیر سے چُپ ہیں
آسان نہ کردی ہو کہیں موت نے مشکل
روتے ہوئے بیمار بڑی دیر سے چُپ ہیں
اب کوئی اشارہ ہے نہ پیغام نہ آہٹ
بام و در و دیوار بڑی دیر سے چُپ ہیں
ساقی یہ خموشی بھی تو کچھ غور طلب ہے
ساقی ترے میخوار بڑی دیر سے چُپ ہیں
یہ برق نشیمن پہ گری تھی کہ قفس پر
مرغانِ گرفتار بڑی دیر سے چُپ ہیں
اِس شہر میں ہر جنس بنی یوسفِ کنعاں
بازار کے بازار بڑی دیر سے چُپ ہیں
                     احمد فراؔز


Sakoot e shab hi sitam ho to ham uthain bhi

سکوتِ شب ہی ستم ہو تو ہم اُٹھائیں بھی

سکوتِ شب ہی ستم ہو تو ہم اُٹھائیں بھی
وہ یاد آئے تو چلنے لگیں ہوائیں بھی
یہ شہر میرے لیے اجنبی نہ تھا لیکن
تمہارے ساتھ بدلتی گئیں فضائیں بھی
جو بزمِ دوست سے اُٹھ کر چلے بزعمِ تمام
کوئی پکارے تو شاید وہ لوٹ آئیں بھی
دلوں کا قرب کہیں فاصلوں سے مٹتا ہے
یہ خود فریب  ترا شہر چھوڑ جائیں بھی
ہم ایسے لوگ جو آشوب ِ دہر میں بھی ہیں خوش
عجب نہیں ہے اگر تجھ کو بھول جائیں بھی
سحر گزیدہ ستاروں کا نور بُجھنے لگا
فراؔز اُٹھّو اب اُس کی گلی سے جائیں بھی
                                احمد فراؔز

2016-03-25

Ankhon ka rang bat ka lehja badal gaya

آنکھوں کا رنگ ، بات کا لہجہ بدل گیا

آنکھوں کا رنگ ، بات کا لہجہ بدل گیا
وہ شخص ایک شام میں کتنا بدل گیا
کچھ دن تو میرا عکس رہا آئینے پہ نقش
پھر یوں ہوا کہ خود مرا چہرا بدل گیا
جب اپنے اپنے حال پہ ہم تم نہ رہ  سکے
تو کیا ہوا جو ہم سے زمانہ بدل گیا
قدموں تلے جو ریت بچھی تھی وہ چل پڑی
اُس نے چھڑایا ہاتھ تو صحرا بدل گیا
کوئی بھی چیز اپنی جگہ پر نہیں رہی
جاتے ہی ایک شخص کے کیا کیا بدل گیا
اک سر خوشی کی موج نے کیسا کیا کمال
وہ بے نیاز سارے کا سارا بدل گیا
اٹھ کر چلا گیا کوئی وقفے کے درمیاں
پردہ اُٹھا تو سارا تماشا بدل گیا
حیرت سے سارے لفظ اُسے دیکھتے رہے
باتوں میں اپنی بات کو کیسا بدل گیا
کہنے کو ایک صحن میں دیوار ہی بنی
گھر کی فضا ، مکان کا نقشہ بدل گیا
شاید وفا کے کھیل سے اُکتا گیا تھا وہ
منزل کے پاس آکے جو رستہ بدل گیا
قائم کسی بھی حال پہ دنیا نہیں رہی
تعبیر کھو گئی ، کبھی سپنا بدل گیا
منظر کا رنگ اصل میں سایا تھا رنگ کا
جس نے اُسے جدھر سے بھی دیکھا بدل گیا
اندر کے موسموں کی خبر اُس کی ہوگئی
اُس نو بہارِ ناز کا چہرا بدل گیا
آنکھوں میں جتنے اشک تھے جگنو سے بن گئے
وہ مسکرایا اور مری دنیا بدل گئی
اپنی گلی میں اپنا ہی گھر ڈھونڈتے ہیں لوگ
امجدؔ یہ کون شہر کا نقشہ بدل گیا
           امجد اسلام امجدؔ









Khuda ham ko aisi khudai na de

خُدا ہم کو  ایسی خدائی نہ دے

خُدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے
خطاوار سمجھے کی دنیا تجھے
اب اتنی  ذیادہ صفائی نہ دے
ہنسو آج اتنا کہ اس شور میں
صدا سسکیوں کی سنائی نہ دے
غلامی کو برکت سمجھنے لگیں
اسیروں کو ایسی رہائی نہ دے
ابھی تو بدن میں لہو ہے بہت
قلم چھین کر روشنائی نہ دے
مجھے اپنی چادر میں یوں ڈھانپ لے
زمیں آسماں کچھ دکھائی نہ دے
خدا ایسے احساس کا نام ہے
رہے سامنے اور دکھائی نہ دے
                   بشیرؔ بدر

2016-03-24

Ek baar kaho tum meri ho

اک بار کہو تم میری ہو

اک بار کہو تم میری ہو
ہم گھوم چکے بستی بن میں
اک آس کا  پھانس لئے من میں
کوئی ساجن ہو ، کوئی پیارا ہو
کوئی دیپک ہو ، کوئی تارا ہو
جب جیون رات اندھیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو
جب ساون بادل چھائے ہوں
جب پھاگن پھول کھلائے ہوں
جب چندا روپ لٹاتا ہو
جب سورج دھوپ نہاتا ہو
یا شام نے بستی گھیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو
ہاں دل کا دامن پھیلا ہو
کیوں گوری کا دل میلا ہو
ہم کب تک پیت کے دھوکے میں
تم کب تک دور جھروکے میں
کب دید سے دل کو سیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو
              ابنِ انشاء

Harf e taaza nai khushboo mein likha chahta hai

حرفِ تازہ نئی خوشبو میں لکھا چاہتا ہے

حرفِ تازہ نئی خوشبو میں لکھا چاہتا ہے
باب اک اور محبت کا کھلا  چاہتا ہے
ایک لمحے کی توجہ نہیں حاصل اسکی
اور یہ دل کہ اسے حد سے سوا چاہتا ہے
اک حجابِ تہہِ اقرار ہے مانع ورنہ
گل کو معلوم ہے کیا دستِ صبا چاہتا ہے
ریت ہی ریت ہے اس دل میں مسافر میرے
اور یہ صحرا ترا نقشِ کفِ پا چاہتا ہے
یہی خاموشی کئی رنگ میں ظاہر ہوگی
اور کچھ روز کہ وہ شوخ کھلا چاہتا ہے
رات کو مان لیا دل نے مقدر لیکن
رات کے ہاتھ پہ اب کوئی دیا چاہتا ہے
تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی
اور تری بزم سے اب کوئی اٹھا چاہتا ہے
               پروین شاکرؔ

2016-03-23

Thak gaya hai dil e wahshi mera feryad se bhi

تھک گیا ہے دلِ وحشی مرا فریاد سے بھی

تھک گیا ہے دلِ وحشی مرا فریاد سے بھی
جی بہلتا نہیں اے دوست تری یاد سے بھی
اے ہوا کیا ہے جو اب نظمِ چمن اور ہُوا
صید سے بھی ہیں مراسم ترے صیاد سے بھی
کیوں سرکتی ہوئی لگتی ہے زمیں یاں ہر دم
کبھی پوچھیں تو سبب شہر کی بنیاد  سے بھی
برق تھی یا کہ شرارِ دلِ  آشفتہ تھا
کوئی پوچھے تو مرے آشیاں برباد سے بھی
بڑھتی جاتی ہے کشش وعدہ گہِ ہستی کی
اور کوئی کھینچ رہا ہے عدم  آباد سے بھی
                  پروین شاکرؔ


Sula raha tha na bedar kar raha tha mujhe

سلا رہا تھا نہ بیدار کرسکا تھا  مجھے

سلا رہا تھا نہ بیدار کرسکا تھا مجھے
وہ جیسے خواب میں محسوس کررہا تھا مجھے
یہی تھا چاند اور اسکو گواہ ٹھہرا کر
ذرا سا یاد تو کر تو نے کیا کہا تھا مجھے
تمام رات مری خواب گاہ روشن تھی
کسی نے خواب میں اک پھول دے دیا تھا مجھے
وہ دن بھی آئے کہ خوشبو سے میری آنکھ کھلی
اور ایک رنگ حقیقت میں چھو رہا تھا مجھے
مین اپنی خاک پہ کیسے نہ لوٹ کر آتی
بہت قریب سے کوئی پکارتا تھا مجھے
درونِ خیمہ ہی میرا قیام رہنا تھا
تو میرِ فوج نے لشکر میں کیوں لیا تھا مجھے
                  پروین شاکرؔ

Bohat roya woh ham ko yar karke

بہت رویا وہ ہم کو یاد کرکے

بہت رویا وہ ہم کو  یاد کر کے
ہماری     زندگی   برباد  کر کے
پلٹ کر پھر یہیں آجا ئیں گے ہم
وہ دیکھے تو ہمیں   آزاد  کر کے
رہائی  کی  کوئی  صورت  نہیں ہے
مگر    ہاں   منّتِ   صیاد  کر  کے
بدن میرا چھوا تھا   اس نے لیکن
گیا  ہے   روح   کو   آباد  کر کے
ہر   آمر   طول   دینا   چاہتا  ہے
مقرر    ظلم   کے   معیار   کر  کے
             پروین شاکرؔ

Woh jab se shehr e kharabat se rawana hua

وہ  جب سے شہرِ خرابات سے روانہ ہوا

وہ جب سے شہرِ خرابات سے روانہ ہوا
براہ راست     ملاقات   کو   زمانہ   ہوا
وہ شہر چھوڑ کے جانا تو کب سے چاہتا تھا
یہ نوکری کا   بلاوا   تو   اک   بہانہ   ہوا
خدا کرے تری آنکھیں ہمیشہ ہنستی رہیں
یہ آنکھیں جن کو کبھی دکھ کا حوصلہ نہ ہوا
کنارِ صحنِ    چمن    سبز   بیل   کے   نیچے
وہ  روز  صبح  کا   ملنا    تو    اب   فسانہ   ہوا
میں سوچتی ہوں کہ مجھ  میں کمی تھی کس شے کی
کہ سب کا ہو کے رہا وہ ، بس اِک مرا نہ ہوا
کسے بلاتی ہیں   آنگن   کی   چمپئی   شامیں
کہ وہ اب اپنے نئے گھر میں بھی پرانا ہوا
دھنک کے رنگ میں ساری تو رنگ لی میں نے
اور اب یہ دکھ ، کہ پہن کر کسے دکھانا ہوا
میں اپنے کانوں میں بیلے کے پھول کیوں پہنوں
زبانِ رنگ سے کس کو   مجھے بلانا   ہوا
                   پروین شاکرؔ