2016-02-22

Sham aai hai sharabe taiz peena chahiye

شام آئی ہے شرابِ تیز پینا چاہیے

شام آئی ہے شرابِ تیز پینا چاہیے
ہو چکی ہے دیر اب زخموں کو سینا چاہیے
مر گئے تو پھر کہاں یہ حسن زارِ زندگی
زخمِ دل گہرا بہت ہے پھر بھی جینا چاہیے
آج وہ  کس  دھج سےسیرِگلستاں میں محو ہے
چھپ کےاس کے ہاتھ سےوہ پھول چھینا  چاہیے
ابر ہو چھایا ہوا اور باغ ہو مہکا ہوا
گود میں گلفام ہو اور پاس مینا چاہیے
جا بجا میلے لگے ہیں لال ہونٹوں کے منؔیر
تیرگی میں دیکھنے کو چشمِ بینا چاہیے
          منؔیر نیازی

No comments:

Post a Comment