2016-02-29

Qarya e jan mein koi phool khilane aaye

قریۂ جاں میں کوئی پھول کھلانے آئے

قریۂ جاں میں کوئی پھول کھلانے آئے
وہ مرے دل  پہ نیا  زخم لگانے آئے
میرے ویران دریچوں میں بھی خوشبو جاگے
وہ مرے گھر کے در و بام سجا نے آئے
اس سے اک بار تو  روٹھوں میں اسی کی مانند
اور مری طرح سے وہ مجھ کو منانے آئے
اسی کوچے میں کئی اس کے شناسابھی تو ہیں
وہ کسی اور سے ملنے کے بہانے آئے
اب نہ پوچھوں گی میں کھوئے ہوئے خوابوں کا پتہ
وہ اگر آئے تو کچھ بھی نہ بتانے آئے
ضبط کی شہر پناہوں کی، مرے مالک ! خیر
غم کا سیلاب اور مجھ کو بہانے آئے
                پروین شاکرؔ

No comments:

Post a Comment