2016-02-26

Parde main har awaz ke shamil to wahi hai

پردے میں ہر آواز کے شامل تو وہی ہے

پردے میں ہر آواز کے شامل تو وہی ہے
ہم لاکھ بدل جائیں مگر دل تو وہی ہے
موضوعِ سخن ہے وہی افسانۂ شیریں
محفل ہو کوئی رونقِ محفل تو وہی ہے
محسوس جو ہوتا ہے دکھائی نہیں دیتا
دل اور نظر میں حدِ فاضل تو وہی ہے
ہر چند ترے لطف سے محروم نہیں ہم
لیکن دلِ بیتاب کی مشکل تو وہی ہے
گرداب سے نکلے بھی تو جائیں گے کہاں ہم
ڈوبی تھی جہاں ناؤ یہ ساحل تو وہی ہے
لُٹ جاتے ہیں دن کو بھی جہاں قافلے والے
ہشیار مسافر کہ یہ منزل تو وہی ہے
وہ رنگ وہ آواز وہ سج اور وہ صورت
سچ کہتے ہو تم پیار کے قابل تو وہی ہے
صد شکر کہ اس حال میں جیتے تو ہیں ناؔصر
حاصل نہ سہی کاوشِ حاصل تو وہی ہے

                    ناؔصر کاظمی

No comments:

Post a Comment