2016-02-07

Kya kare meri maseehai




کیا کرے میری مسیحائی بھی کرے والا
کیا کرے میری مسیحائی بھی کرے والا
زخم ہی یہ مجھے  لگتا نہیں بھرنے والا
زندگی سے کسی سمجھوتے کے  باوصف اب تک
یاد آتا ہے کوئی مارنے مرنے والا
اس کو بھی ہم ترے کوچے میں گزار آئے ہیں
زندگی میں وہ جو لمحہ تھا سنورنے والا
اس کا اندازِ سخن سب سے جدا تھا شاید
بات لگتی ہوئی، لہجہ وہ مُکرنے والا
شام ہونے کو ہے اور آنکھ میں کوئی خواب نہیں
کوئی اس گھر میں نہیں روشنی کرنے والا
دسترس میں ہیں عناصر کے ارادے کس کے
سو بکھرکے ہی رہا کوئی بکھرنے والا
اسی امید پہ ہر شام بجھائے ہیں چراغ
ایک   تارا  ہے  سرِ بام   اُبھرنے   والا
                                پروین شاکرؔ


No comments:

Post a Comment