2016-02-14

Kuch to hawa bhi sard thi

کچھ تو ہوا بھی سرد تھی، کچھ تھا ترا خیال بھی

کچھ تو ہوا بھی سرد تھی، کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
بات وہ آدھی رات کی، رات وہ پورے چاند کی
چاند بھی عین چیت کا اُس پہ ترا  جما ل بھی
سب سے نظر بچا کے وہ مجھ کو کچھ ایسے دیکھتا
ایک دفعہ تو رُک گئی گردش ِماہ و سال بھی
دل تو چمک سے گا کیا، پھر بھی ترش کے دیکھ لیں
شیشہ گرانِ شہر کے ہاتھ کا ہی کمال بھی
اُس کو نہ پا سکے تھے جب دل کا عجیب حال تھا
اب جو پلٹ کے دیکھیے، بات تھی کچھ محال بھی
            پروین شاؔکر

No comments:

Post a Comment