2016-02-18

Ku ba ku phail gai bat

کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
           
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اُس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
وہ کہیں بھی گیا، لوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی
تیرا پہلو، ترے دل کی طرح آباد رہے
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شبِ تنہائی کی
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پر جب ہاتھ رکھا
روح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اٹھتی ہے عجب خوہشیں انگڑائی کی
                     پروین شؔاکر

No comments:

Post a Comment