بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں
میری نظریں بھی ایسے قاتلوں کا جان و ایماں ہیں
نگاہیں ملتے ہی جو جان اور ایمان لیتے ہیں
طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
ہم ایسے میں تیری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں
خود اپنا فیصلہ بھی عشق میں کافی نہیں ہوتا
اسے بھی کیسے کرگزریں جو دل میں ٹھان لیتے ہیں
جسے صورت بتاتے ہیں ، پتہ دیتی ہے
سیرت کا
عبارت دیکھ کر جس طرح معنی جان لیتے
ہیں
تجھے گھاٹا نہ ہونے دیں گے کاروبارِ الفت میں
ہم اپنے سر تیرا، اے دوست، ہر احسان لیتے ہیں
ہماری ہر نظر تجھ سے نئی سوگندھ کھاتی ہے
تو تیری ہر نظر سے ہم نیا پیغام لیتے
ہیں
فراؔق اکثر بدل کر بھیس ملتا ہے کوئی کافر
کبھی ہم جان لیتے ہیں، کبھی پہچان لیتے ہیں
فراؔق
گورکھپوری
No comments:
Post a Comment