بادباں کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا
بادباں کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا
میں سمندر دیکھتی ہوں تم کنارہ دیکھنا
یوں بچھڑنا بھی بہت آساں نہ تھا اس سے مگر
جاتے جاتے اس کا وہ مڑ کر دوبارہ دیکھنا
کس شباہت کو لئے آیا
ہے چاند
اے شبِ ہجراں! ذرا اپنا ستارہ دیکھنا
کیا قیامت ہے کہ جن کے نام پر پسپا ہوئے
ان ہی لوگوں کو مقابل میں صف آرا دیکھنا
جب بنامِ دل گواہی سر کی مانگی جائے
خون میں ڈوبا ہوا پرچم ہمارا دیکھنا
جیتنے میں بھی جہاں جی کا زیاں زیادہ
ہے
ایسی بازی ہارنے میں کیا خسارہ دیکھنا
آئینے کی آنکھ بھی کچھ کم نہ تھی میرے لئے
جانے اب کیا کیا دیکھائے گا تمہارا دیکھنا
ایک مشت خاک اور وہ بھی ہوا کی زد میں
زندگی کی بے بسی کا استعارہ دیکھنا
پروین
شاکؔر
No comments:
Post a Comment