2016-02-28

Azurdagan e shehr ka jaisa bhi hal ho

آزردگانِ شہر کا جیسا بھی حال ہو

آزردگانِ شہر کا جیسا بھی حال ہو
اے یارِ خوش دیار تجھے کیوں ملال ہو
اب بات دوستی کی نہیں حوصلے کی ہے
لازم نہیں کہ تو بھی میرا ہم خیال ہو
اب کے وہ درد دے کہ میں روؤں تمام عمر
اب کے لگا وہ زخم کہ جینا محال ہو
پہلے وہ اضطراب تجھے کس طرح بھُلائیں
اب یہ عذاب کیسے طبیعت بحال ہو
خود میرا ہاتھ جب مری بربادیوں میں تھا
تیری جبیں پہ کیوں عرقِ انفعال ہو
پھر تو نے چھیڑ دی ہے گئی ساعتوں کی بات
وہ گفتگو نہ کر کہ تجھے  بھی ملال ہو
میری ضرورتوں سے زیادہ کرم نہ کر
ایسا سلوک کر کہ مرے حسبِ حال ہو
ٹوٹا تو ہوں مگر ابھی بکھرا نہیں فرؔاز
میرے بدن پہ جیسے شکستون کا جال ہو
                     احمد فرازؔ

No comments:

Post a Comment