2016-02-24

Aik sa apne prai pe karam hai us ka

ایک سا اپنے پرائے پہ کرم ہے اس کا

ایک سا اپنے پرائے پہ کرم ہے اس کا
بس یہی اہل ِ محبت پہ ستم ہے اس کا
لاجونتی کی طرح جو میرے دل میں اُتری
مجھ سے شرمانے کو شاید یہ جنم ہے اس کا
وہ پجاری کہ نہ دل جس کا لگے پوجا میں
ایسا لگتا ہے کوئی اور صنم ہے اس کا
مرد کے ساتھ کی ملزم ہے جو بےبس عورت
اس پہ کیا گزرے گی یارو مجھے غم ہے اس کا
مجھ سے مفلس کا بھی جب حال کوئی پوچھتا ہے
میں یہ کہتا ہوں بڑا مجھ پہ کرم ہے اس کا
اس کی مرضی کہ جہاں چاہے کرائے سجدہ
مسجدیں اس کی ہیں، دیر اسکا، حرم ہے اس کا
وہ جو لکھواتا ہےبس میں وہ لکھے جاتا ہوں
ہاتھ بیشک میرا اپنا ہے ، قلم ہے اس کا
سب خلاؤں کے مسافر یہ گواہی دیں گے
جو ستارہ ہے ، وہ اک نقشِ قدم ہے اس کا
مشترک دردِ محبت اسے کہتے ہیں قتؔیل 
اشک میرے ہیں مگر دیدۂ نم ہے اس کا
         قتیل شفائی 

No comments:

Post a Comment