2016-02-20

Ab teri yad se wehshat nahi hoti mujh ko

اب تری یاد سے وحشت نہیں ہوتی مجھ کو

اب تری یاد سے وحشت نہین ہوتی مجھ کو
زخم کھلنے  سے اذیّت  نہیں ہوتی مجھ کو
اب کوئی آئے ، چلا جائے،  میں خوش رہتا ہوں
اب کسی شخص کی عادت نہیں ہوتی مجھ کو
ایسا بدلا ہوں ترے شہر کا پانی   پی  کر
جھوٹ بولوں تو ندامت نہیں ہوتی  مجھ کو
ہے امانت میں خیانت ، سو کسی کی خاطر
کوئی مرتا ہے تو  حیرت نہیں ہوتی مجھ کو
تو جو بدلے تری تصویر بدل جاتی ہے
رنگ بھرنے میں سہولت نہیں ہوتی مجھ کو
اکثر اوقات میں تعبیر بتا دیتا  ہوں
بعض اوقات اجازت نہیں ہوتی مجھ کو
اتنا مصروف ہوں  جینے کی ہوس میں محسؔن
سانس لینے کی بھی فرصت نہیں ہوتی مجھ کو
                   محسؔن نقوی

No comments:

Post a Comment