2016-02-12

Aankhon se meri kon mere khawab

آنکھوں سے میری، کون مرے خواب لے گیا

آنکھوں سے میری کون مرے خوب لے گیا
چشمِ صدف سے گوہرِ  نایاب لے گیا
اس شہرِخوش جمال کو کس کی لگی ہے آہ
کس دل زدہ کا گریۂ خوناب لے گیا
کچھ نا خدا کے فیض سے ساحل بھی دور تھا
کچھ قسمتوں کے پھیر میں گرداب لے گیا
واں شہر ڈوبتے ہیں ، ادھر بحث کہ اُنہیں
خُم کے گیا ہے یا خمِ محراب لے گیا
کچھ کھوئی کھوئی آنکھیں بھی موجوں کے ساتھ تھیں
شاید اُنہیں بہا کے کوئی خواب لے گیا
طوفانِ ابر و باد میں سب گیت کھو گئے
جھونکا ہوا کا ہاتھ سے مضراب لے گیا
غیروں کی دشمنی نے نہ مارا، مگر ہمیں
اپنوں کے التفات کا زہراب لے گیا
اے آنکھ! اب تو  خواب کی دُنیا سے لوٹ آ
"مژگاں تو کھول! شہر کو سیلاب لے گیا"
                  پروین ؔشاکر

No comments:

Post a Comment