ریت کے بت نہ بنا اے میرے اچھے فنکار
ایک لمحے کو ٹھہر میں تجھے پتھر لادوں
میں تیرے سامنے انبار لگادوں لیکن
کون سے رنگ کا پتھر تیرے کام آئے گا
سُرخ پتھر جسے دل کہتی ہے بے دل دنیا
یا وہ پتھرائی ہوئی آنکھ کا نیلا پتھر
جس میں صدیوں کے تحیر کے پڑے ہوں ڈورے
کیا تجھے روح کے پتھر کی ضرورت ہوگی
جس پہ حق بات بھی پتھر کی طرح گرتی ہے
اک وہ پتھر ہے جسے کہتے ہیں تہذیبِ سفید
اس کے مر مر میں سیہ خون جھلک جاتا ہے
ایک انصاب کا پتھر بھی تو ہوتا ہے مگر
ہاتھ میں تیشۂ زر ہو تو ہو ہاتھ آتا ہے
جتنے معیار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں
جتنے افکار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں
شعر بھی رقص بھی تصویر و غنا بھی پتھر
میرا الہام تیرا ذہنِ رسا بھی پتھر
اس زمانے میں تو ہر فن کا نشاں پتھر ہے
ہاتھ پتھر ہیں تیرےمیری زباں پتھر ہے
ریت کے بت نہ بنا اے میرے اچھے فنکار
احمد ندیم قاسمی
No comments:
Post a Comment